اسلام

اسلام کا پیغام ۱۴۰۰سال سے زیادہ عرصے پہلے، ساتویں صدی عیسوی کے پہلے عشرے میں حضرت ابراہیم کے خاندان میں وحی کی آخری سنت کے طور پر حضرت محمّد (ص) پر نازل ہوا۔قرآن کریم مقدس الٰہی کلام پر مشتمل ہے جو وحی کے ذریعے حضور اکرم پر نازل ہوا۔

لغت کے اعتبار سے اسلام لفظ "سَلَمَ" سے مشتق ہے جو امن اور اللہ کے حضور سرِ "تسلیم" خم کرنے کے معنوں میں ہے۔ "اللہ" کا لفظ "خدا"کے معنوں میں ہے اور اِس سے مراد ہر معبود نہیں بلکہ وہی یکتا اور واحد خالق ہے۔1

حضور اکرم حضرت محمّد(ص)نے خداوندعالم کی معرفت کا طریقہ اور دستور العمل تعلیم فرمایا ہے جو اپنے وجود کی واقعیت سے ہونے والی شناخت کے طریقے سےمیسّر ہوتا ہے ۔ ایسی معرفت کے حصول کے لیے آدمی کو چاہیے کہ وجود کی اصل یکتائی کی حقیقت (توحید) جو تمام عالم میں حکم فرما ہے سے واقف ہو اور ہستی کے پوشیدہ علم کے سامنے سرتسلیم خم کرے۔

"توحید" اِسی بنیاد کی طرف لوٹتی ہے کہ جو کچھ ہستی میں ہے وہ سب ایک ہمہ پہلو رابطے میں ہے اور ایک محض کلیّت میں شامل ہے۔ اِس طرح کی کلیّت اور یکتائی ایک یکتا خالق کے وجود سے بروئے کار لائی جاتی ہے، جسے مسلمان "اللہ" کے نام سے پکارتے ہیں اور عیسائی اُسے(God)کا نام دیتے ہیں۔2

علم ازلی کے سامنے سر"تسلیم" خم کرنے سے انسان علم و عقل کی بنیادوں پر حقیقت کی شناخت کی راہ میں مستحکم قدم اٹھاتا ہے اور اُس کے اعمال و کردار جہالت، تعصّب اور اندھی تقلید کے تحت نہیں ہوں گے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ معاشروں میں اصلِ تسلیم کی ایک غلط معنی رائج ہیں اور تسلیم کے معنی کمزوری، بھیڑچال قرار دیئے گئے ہیں۔ جبکہ خرافات کے محدود سمتوں میں غرق ہونا، اندھی تقلید اور بھیڑچال، انسان کے شایان شان نہیں اور نہ ہی اُس کے معنوی مقام کے مناسب ہےجیسا کہ خداوندِعالم نے اُس کے لیےمقدر کیا ہے۔

اِس بارے میں حضرت امیرالمومنین علی کا گراں قدر رہنما کلام جو عالم انسانیت کی ہدایت کے لیے روشن چراغ ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

" اسلام وہی تسلیم ہے اور تسلیم سے مراد وجود کی عین واقعیت میں استقرار اور ثابت قدمی ہے۔"3

ایسا تسلیم اور استقرار اسلام کے حیات بخش ہونےکی نشان دہی کرتا ہے کیونکہ انسان کے وجودی مرکزیت کی کنہ یعنی قلب میں ایک باطنی تبدیلی اور انقلاب کے اسباب فراہم کرتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں تمام مفروضہ حدود، موہوم دوئی کے فاصلے اور جہات ٹوٹ جاتےہیں اور خداوندعالم کی یکتائی (توحید) جو دین مبین اسلام کی اولین بنیاد ہے ظہور اور جلا پاتی ہے۔

خلوص کے اِس درجے میں سالک کے دل سے حکمت کے چشمے زبان کے راستے پھوٹ پڑتے ہیں اور وہ ایسی چیزیں دیکھنے لگتا ہے جنہیں نہ تو کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی کسی کان نے سنا ہے اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں اُس کا خیال گزرا ہے اور تجلیات و صفات کو عیان دیکھ لیتا ہے۔ جب بھی خداوندعالم اپنے کسی بندے کی بھلائی چاہتا ہے تو اُس کے دل کی آنکھ کو کھول دیتا ہے اور سلوک میں اپنے امر کا جذبہ عطا کرتا ہے اور اُسے نسیم رحمت کے جھونکوں سے ملحق کرتا ہے اور اپنی ذاتی کرامات سے اُس کی مدد کرتے ہوئے تعاون فرماتا ہے۔4


_____________________________
حوالہ جات:
1- Houston Smith, World's Religions (Harper San Francisco, 1986) p.146
2- Robert Dickson Crane, Understanding Islam: Perils and Prospects, Lecture-Part II. p.7
3- Molana Salaheddin Ali Nader Angha, Theory "I" (M.T.O. Publications®, Riverside CA, 2002) p.166
4- Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Al-Rasa'el - Purification and Enlightenment of the Hearts, (M.T.O. Shahmaghsoudi Publications®, Tehran, 1975) p.4

Bitte aktualisieren Sie Ihren Flash Player!