اسلام اور وحدتِ دین

تمام مذاہب کی بنیاد ایک ہی اصول پر ہے اور وہ ہے اصولِ وحدت۔ تمام پیغمبر اِس خوشخبری کے ساتھ آئے تھے کہ خدا صرف ایک ہے اور ہر فرد اُسے پہچان سکتا ہے۔ اگر حقیقت صرف ایک ہے، یعنی خداے واحد، تو پھر دین بھی ایک ہی ہوگا، تو پھر "ادیان" کے لفظ کا کیا مطلب ہے اور دین کی حقیقت کیا ہے؟

عرفان ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ پیغمبروں، حضرت موسٰی، حضرت عیسٰی اور حضرت محمّد(ص)کے الفاظ اور تعلیمات ایک دوسرے سے مختلف نہیں، بلکہ یہ سب کے سب تمام پُر شوق انسانی روحوں کی خداوندِ یکتا کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور انسان کے ملکوتی مراتب کو بلند کرنے اور آخرِکار خالق و مخلوق کی ہم رشتگی کی تعلیم دیتے ہیں۔ ہر پیغمبر ایک خاص درجۂ ادراک کی علامت ہے۔ اِن پیغمبروں کی تعلیمات ایک ہی دین کی حقیقت کو پیش کرتی ہیں اور انسانی روح کو آزادی کے مختلف مدارج سے گزارتی ہیں۔

کیرن آرمسٹرانگ اپنی کتاب "خدا کی تاریخ" میں بیان کرتی ہیں:

"جب ایک عیسائی ورقہ بن نوفل نے حضرت محمّد کو ایک سچّے رسول کی حیثیت سے تسلیم کیا تو نہ اُس نے اور نہ ہی حضرت محمّد نے یہ توقّع کی کہ وہ مذہبِ اسلام قبول کر لے۔ حضرت محمّد نے یہودیوں یا عیسائیوں سے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ اُن کے الله کے مذہب کو قبول کر لیں سواے اُن کے، جنھوں نے خود اُن سے درخواست کی، کیوں کہ اُن کے پاس وحیٔ الٰہی کے حامل اپنے پیغمبر تھے۔ قرآنِ پاک میں بھی الہام کا مطلب پیش رو پیغمبروں پر ہونے والے الہام اور وحی کو مسترد کرکے اپنا پیغام دینا نہیں، بلکہ اِس کے بجاے اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ انسانوں کے مذہبی تجربات میں ایک تسلسل پایا جاتا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ ہم اِس نکتے پر غور کریں کہ مغرب کے اکثر لوگ اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسلام دیگر ادیان سے موافقت نہیں کرتا اور اُن سے بنا کر نہیں رکھتا، حالاں کہ ایسا نہیں ہے اور مسلمان ابتدا ہی سے یہودیوں اور عیسائیوں کی بہ نسبت وحی کو صرف اپنے پیغمبر تک محدود نہیں سمجھتے تھے۔"[1]

ہمارے عہد کے ایک عظیم عارف حضرت صلاح الدّین علی نادر عنقا اپنی کتاب "صوفی ازم" [عرفان] میں بڑی فصاحت سے اسلام میں عرفان اور وحدتِ دین کا مطلب بیان کرتے ہیں:

"عرفان پیغمبروں کی تعلیمات کا جوہر ہے اور تاریخِ بشریّت کی ابتدا سے موجود رہا ہے، کیوں کہ معرفت کا بیج تمام انسانوں کے قلب میں مخفی ہے اور ہر دور میں خداوندِِ عالم نے مرسل پیغمبروں، مثلًا زرتشت، موسٰی، بدھ، داؤد، عیسٰی اور حضرت محمّد (ص) کو لوگوں کی رہبری و بشارت کی خاطر معرفت کے اِس بیج میں پوشیدہ علمِ الٰہی کی دریافت کے لیے روانہ فرمایا۔ تمام پیغمبر ایک خاص تعلیم اور دستورالعمل ساتھ لائے تاکہ حقیقت کے متلاشیوں کے باطنی سفر میں اُن کی رہنمائی کر سکیں۔"[2]

الله تعالٰی نے قرآن میں فرمایا ہے:

قُلْ آمَنَّا بِاللّهِ وَمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَالنَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ

(3:84)

"کہو ہم الله پر ایمان لائے ہیں اور جو کچھ ہم پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ موسٰی اور عیسٰی اور جملہ انبیا (علیہم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کیا گیا ہے (سب پر ایمان لائے ہیں)، ہم اِن میں سے کسی پر بھی ایمان میں فرق نہیں کرتے اور ہم اُسی کے لیے اسلام لائے ہیں۔"
(سورۂ آلِ عمران:۳، آیت۸۴)

مندرجہ بالا آیت مکمل طور پر واضح کرتی ہے کہ اسلام نے پیغمبروں کے مابین کوئی فرق نہیں رکھا۔ اس پیغام کے بعد کی آیت میں بھی الله تعالٰی نے فرمایا ہے:

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ

(3:85)

"اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔"
(سورۂ آلِ عمران:۳، آیت۸۵)

اگر سائنسی اور تحقیقی ذہن رکھنے والا آج کا کوئی فرد اسلام کو نگل جانے والے متعصّبانہ اور بے بنیاد پروپیگنڈے اور توہّمات کو رد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ اُس پیغام کی سچّائی کو سمجھ سکے گا، کیوں کہ 'اسلام' کے معنی دانشِ ازلی و خداوند کے ّگے سرِ تسلیم خم کر دینا ہے اور عروجِ الٰہی کا انتہائی مرتبہ انسان کو منوّر کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وجود کا محدود قطرہ اپنی محدودیت سے نکل کر سمندر میں فنا ہو جاتا ہے، دوسرے لفظوں میں قطرہ اور سمندر ایک دوسرے میں حل ہو جاتے ہیں۔ حقیقتِ کُل"، یعنی خدا کے آگے اصل علم کے آگے سر جھکا دینے ہی سے کوئی انسان سچّائی کی گواہی دیتا ہے اور اپنے دل کی مقدّس عبادت گاہ میں الله کی وحدانیت کی تصدیق کرتا ہے۔[3]


_____________________________
حوالہ جات:
1. Karen Armstrong, A History of God: The 4000-year Quest for Judaism, Christianity, and Islam (New York: The Random House Publishing Group, 1993) pp.152-153.
2. Molana Salaheddin Ali Nader Angha, Sufism ( Irvine, CA: M.T.O. Publications,1996) p. 26.
3.Molana Salaheddin Ali Nader Angha, Peace .(Verdugo, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications 1987). p. 32.

Bitte aktualisieren Sie Ihren Flash Player!