اصولِ اسلام
اصول دین اورفروع دین

اسلام کی تعلیمات "اصول دین" کے عنوان سے پانچ اصولوں میں مندرجہ ذیل وضاحت کے ساتھ پیش ہیں:

  • ۱۔ خداوندِعالم کی یکتائی (توحید)

  • ۲۔ نبیِ اکرم(ص) کی رسالت (نبوّت)

  • ۳۔ قیامت (معاد)

  • ۴۔ اعتدال اور توازن (عدل)

  • ۵۔ روحانی ہدایت (امامت)

اصول دین اجتہادی ہیں اور مقدّس اسلام کے"اصول دین" کی معرفت کے بعد جو کچھ ان اصولوں سے دریافت ہوتا ہے "فروع دین" کی بجاآوری کے ساتھ انہیں کام میں لایا جاتا ہے۔

  • ۱۔ نماز(صلاۃ): روزآنہ کی پانچ نمازوں کی ادائیگی
  • ۲۔ روزہ (صوم): ماہِ مبارک رمضان کے روزے
  • ۳۔ خمس: مال اور توانائی کے پانچویں حصّےکو بھلائی کے کاموں میں صرف کرنے کے لیے مخصوص کرنا
  • ۴۔ زکوٰۃ: تزکیہ ،اضافی چیزوں سے جان و مال اور کردار کی پاکیزگی
  • ۵۔ حج: "زیارت"خانۂ خدا میں مناسک کی ادائیگی
  • ۶۔ جہاد: معرفت اور شناخت حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنا
  • ۷۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر: علم و معرفت کا شائع کرنا اور جہالت سے روکنا

عرفا نے اسلامی تعلیمات کی تین مراحل میں شرح و توصیف کی ہے۔ مولانا جلال الدّین علی میر ابوالفضل عنقا اپنی کتب میں شیخ نجم الدین کبریٰ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

" تصوف کے تین درجے ہیں: شریعت، طریقت اور حقیقت۔فرماتے ہیں کہ: شریعت کشتی کی مانند ہے۔ طریقت سمندر جیسا اور حقیقت موتی کی مانند ہے۔ پس جو بھی شخص موتی کا خواہش مند ہوتا ہے وہ کشتی میں سوار ہو کر سمندر میں سفر شروع کرتا ہے اور آخرکار موتی تک پہنچ جاتا ہے۔ جس کسی نے بھی اِس ترتیب کو چھوڑا وہ حقیقت تک رسائی نہ پاسکا۔یعنی طالب علم پر جو چیز سب سے پہلے واجب ہے وہ شریعت ہے؛ اور شریعت سے مراد وہ احکام ہیں جس کا خداوندعالم اور رسول اکرم(ص) نے دیا ہے، یعنی وضو، نماز، روزہ، حج، حرام کاموں کو ترک کرنا اور اوامر اور نواہی کے علاوہ حقیقی اور یقینی شرائط کا پورا کرنا ہے؛اور طریقت کا لازمہ تقویٰ ہے اور ہر وہ چیز جو تجھے تیرے مالک سے نزدیک کرے جیسے جاہ و مقام سے قطعِ نظرکرنا؛ لیکن حقیقت سے مراد اپنے مقصد تک رسائی اور نورِ تجلی کا مشاہدہ ہے۔"1

امیرالمومنین حضرت علی(ع) نے فرمایا: "شریعت حق کے ساتھ حق کی بندگی ہے؛ طریقت حق کے ساتھ حق کے سامنے حاضر ہونا ہے؛ اور حقیقت سے مراد حق کے ساتھ حق کا مشاہدہ کرنا ہے۔" صلوۃ (نماز) پڑھنے کے معنوں میں ہے اورحق کے تقرّب کے لیے کوشش ہے ۔ حضرت امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا: صلوۃ (نماز) تین مراتب پر مشتمل ہے: شریعت میں نماز سے مراد ارکان و اذکار کی ادائیگی ہے۔ اور طریقت میں نماز سے مراد تمام موجودات سے کنارہ کش ہو کر رحمٰن پروردگار کی طرف کلّی توجّہ پیدا کرنا ہے اور حقیقت، ہر زمان و مکاں میں مناجات کی لذّتوں میں غرق ہونا ہے۔1

حقیقت میں دین اسلام کے ہر ایک فروعِ دین میں یہ تینوں مراتب پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر روزہ شریعت میں کھانا پینا ترک کرنے کا نام ہے۔ طریقت میں صوم (روزہ) سے مراد اوہام سے دور رہنے اور رب الانام کی محبت میں مشغول ہونےکا نام ہے۔شریعت میں حج، بیت اللہ کی زیارت کرنے، طریقت میں اللہ کی تجلیات کی زیارت کرنے اور حقیقت میں حج، فنا فی اللہ ہونےکا نام ہے۔

جس وقت ایک سالک ان تمام چیزوں کو بجالاتا ہے، جس کا ذکر کیا گیا ہے تو اپنے شرح صدر کی منزل تک پہنچ گیا ہے اور عبادات اور اطاعات کے کردار میں اُس کے زبان و جوارح انوارِ ملکات نفسانیہ سے تقویت پاتے ہیں اور ایسا شخص پروردگار عالم کے اُس قول کا مصداق قرار پاتا ہے، جیسے کہ ربّ العالمین نے وعدہ فرمایا ہے:1

"اللّہ دوست اور سرپرست ہے اُن لوگوں کا جو ایمان لاتے ہیں، نکالتا ہے اُن کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف۔"
قرآنِ کریم:(سورۂ بقرہ:۲، آیت۲۵۷)


_____________________________
حوالہ جات:
1. Sadegh ANGHA, Hazrat Shah Maghsoud, Al-Rasa'el - Purification and Enlightenment of the Hearts, M.T.O. Shahmaghsoudi Publication®, Verdugo City, CA, USA, 1991.

Bitte aktualisieren Sie Ihren Flash Player!