اصلِ معاد

"پھر یقیناً تم قیامت کے دن اٹھا کھڑے کیےجاؤگے۔ "
قرآنِ مجید (سورۂ مومنون:۲۳، آیت۱۶)

اسلام میں اپنی حقیقتِ وجود کی تلاش کو 'قیام' کہتے ہیں، یعنی انسان اپنی مستحکم بنیادوں پر اُٹھ کھڑا ہو، اور کسی اَور کی طرف ہرگز نہ جھکے۔ مثال کے طور پر نماز کا پہلا مرحلہ اٹھ کھڑے ہونا ہے اور اس ارادے سے بالکل سیدھا کھڑا ہونا ہے کہ خدا کی گواہی دینی ہے اور اُس کی وحدانیت کا اقرار کرنا ہے۔

"کیا نہیں غور و فکر کیا انھوں نے کبھی اپنے آپ میں، کہ نہیں پیدا کیا اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے مگر بر حق اور ایک وقتِ مقرر کے لیے اور یہ ہے کے اکثر انسان اپنے رب کے حضور پیشی کے منکر ہیں۔"
قرآنِ کریم(سورۂ روم:۳۰، آیت۸)

امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب(ع) نے، جو صوفیہ کے قابلِ احترام سربراہ ہیں، فرمایا: "میں اُن لوگوں پر حیران ہوں جو خود کو پہچانتے نہیں اور خدا کو پہچاننا چاہتے ہیں۔"

عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ خدا کو جانتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی خدا ہے جس نے ہمیں تخلیق کیا ہے، پھر ہمیں چھوڑ دیا ہے، جب یومِ آخرت آئے گا، ہمارا خیال ہے کہ وہ خدا دوبارہ نمودار ہوگا اور ہماری قسمت کا فیصلہ کرے گا اور تب وہ ہمیں جنت یا جہنّم میں بھیجے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہرانسان اُس جہنّم یا جنّت میں رہتا ہے جو اُس نے خود بنائی ہے اور اِس ارضی زندگی کے بعد بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ جب مرجائیں گے تو وہ کہیں اَور سفر کر جائیں گے۔

حضور اکرم حضرت محمّد(ص) نے فرمایا:

"کما تعیشون تموتون و کما تموتون تحشرون"
"جس طرح کی زندگی تم اِس دنیامیں گزارو گے، اُسی طرح تم اِس کے بعدبھی گزارو گے۔"

اگر آپ اِس دنیا میں اضطراب اور پریشانی کی حالت میں تھے تواِسی طرح آپ اِس دنیا کے بعدبھی رہیں گے۔ یہی وہ جہنّم ہے، جس میں آپ ہوں گے، یہاں بھی اور یہاں کے بعد بھی۔ بے چینی اور بے کلی، غصّہ، لالچ، حسد، جس کے ساتھ لوگ جیتے ہیں، وہی اُن کا جہنّم ہے اور اِسی طرح وہ اپنا سفر اِس دنیوی زندگی کے بعد بھی جاری رکھیں گے۔

تمام پیغمبروں کا بنیادی پیغام، جو حضرت محمّد(ص) نے اپنے الفاظ میں دیا ہے، کچھ یوں ہے:

"موتوا قبل ان تموتوا"
"مر جاؤ، اِس سے پہلے کہ تمھیں موت آئے۔"

اِس کا مطلب ہے، اپنے انسانی نفس کو مار ڈالو، اُس نقاب کو اٹھا دو جس نے تمھاری حقیقت کو چھپا رکھا ہے تو تمھیں یہاں بھی سکون مل جائے گا اور دائمی زندگی میں بھی۔

جس وقت انسان اپنی محکم وجودی مرکزیت میں قیام کرتا ہے تو مجازی حدود اور ابعاد ٹوٹ جاتے ہیں اور انسان رہائی اور ابدی سکون کا تجربہ کرتا ہے، پانی کے اُس قطرے کی مانند، جو بلبلہ ٹوٹنے کے بعد سمندر میں شامل ہو کر سمندر کی عظمت اور وسعت کا تجربہ کرتا ہے۔ تصوّف و عرفان میں یہ حالت 'فنا فی اللّٰہ و بقا باللّٰہ' کی حالت کہلاتی ہے جو اصلِ معاد اور قیامت کی حقیقت کو بیان کرنے والا ہے۔1


_____________________________
حوالہ جات:
1- Molana Salaheddin Ali Nader Angha, Sufism, The Reality of Religion (Riverside, CA: M.T.O. Publications®, 2002)

Bitte aktualisieren Sie Ihren Flash Player!