اسلام میں عقیدے کا اعلان - دوسرا حصّہ

پیغمبرِ اکرم حضرت محمّد(ص) کی آمد کی پیشین گوئی توریت کی کتابِ استثنا میں حضرت موسٰی (ع) نے کردی تھی اور حضرت عیسٰی (ع) کے مطابق بھی اللّٰہ کے ایک پیغمبر کی آمد کی خوش خبری دے دی گئی تھی، جواُن کے بعد تشریف لائیں گے اور اُن کا نام 'احمد' ہوگا۔

قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے:

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِيَ أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

وہ جو (محمّد) رسول (اللّٰہ ﷺ) کی، جو نبیٔ اُمّی ہیں، پیروی کرتے ہیں، جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ اُنھیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور بُرے کام سے روکتے ہیں۔ اور پاک چیزوں کو اُن کے لیے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو اُن پر حرام ٹھہراتے ہیں اور اُن پر سے بوجھ اور طوق، جو اُن (کے سر) پر (اور گلے میں) تھے، اتارتے ہیں۔ تو جو لوگ اُن پر ایمان لائے اور اُن کی رفاقت کی اور اُنھیں مدد دی، اور جو نور اُن کے ساتھ نازل ہوا ہے، اُس کی پیروی کی، وہی مراد پانے والے ہیں۔ (سورۂ الاعراف:۷، آیت۱۵۷)

وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ

اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب مریمؑ کے بیٹے عیسٰی نے کہا کہ اے بنی اسرائیل، میں تمھارے پاس خدا کا بھیجا ہوا آیا ہوں (اور) جو (کتاب) مجھ سے پہلے آچکی ہے، (یعنی) تورات، اُس کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک پیغمبر، جو میرے بعد آئیں گے، جن کا نام احمد(ﷺ) ہوگا، اُن کی بشارت سناتا ہوں۔ (پھر) جب وہ اُن لوگوں کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو (وہ لوگ) کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادو ہے۔ (سورۂ الصّف:۶۱، آیت۶)

خدا نے اُن کے درمیان اُن میں سے اُنھی جیسا پیغمبر بھیج کرمومنوں پر اپنی رحمت تمام کردی ہے۔ پیغمبر نہیں تھے، مگر "تمھاری طرح کے ایک بشر"(سورۂ الکہف:۱۸، آیت۱۱۰)، وہ پیغمبر جن کی طرف وحی ہوتی ہے اور جن میں خدائی الہام وصول کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ

کہہ دو: میں بھی تم جیسا بشر ہوں۔ (ہاں) مجھ پر یہ وحی آتی ہے کہ تمھارا معبود خداے واحد ہے تو سیدھے اُسی کی طرف (متوجّہ) رہو اور اُسی سے مغفرت مانگو اور مشرکوں پر افسوس ہے۔ (سورۂ حٰمٓ السّجدہ:۴۱، آیت۶)

رسول کو بھیجا گیاہے تاکہ اُن لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائے:

رَّسُولًا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّهِ مُبَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا قَدْ أَحْسَنَ اللَّهُ لَهُ رِزْقًا

(اور) رسول (ﷺ) کو (بھی بھیجا ہے) جو تم پر اللّٰہ کی واضح آیات پڑھ کر سناتے ہیں تاکہ اُن لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائے... (سورۂ الطّلاق:۶۵، آیت۱۱)

کیوں کہ پیغمبر اللّٰہ کی واضح آیات پڑھ کر سناتا ہے، اُنھیں پاک کرتا اور کتاب و حکمت سے اُن کی رہنمائی فرماتا ہے:

لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُّبِينٍ

بے شک اللّٰہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ اُن کے درمیان اُنھی میں سے (عظمت والا) رسول (ﷺ) بھیجا جو اُن پر اُس کی آیتیں پڑھتا اور اُنھیں پاک کرتا ہے اور اُنھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اِس سے پہلے کھلی گم راہی میں تھے۔(سورۂ آلِ عمران:۳، آیت۱۶۴)

اوروہ دعوت دیتے ہیں اللّٰہ کے حکم سے:

وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا

اللّٰہ کی طرف دعوت دینے والے اُسی کے اِذن سے اور چراغِ روشن۔(سورۂ الاحزاب:۳۳، آیت۴۶)

ہمیں خدا اور اُس کے رسول کی اطاعت کرنی چاہیے، کیوں کہ نافرمانوں کے لیے جہنّم کا دروازہ کھلا ہے، جب کہ اطاعت گزار اُس جماعت کا حصّہ ہیں جس پر خدا کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے، یعنی پیغمبرانِ کرام،عاشقانِ رب، شاہدانِ حق اور متّقین جن کے ساتھ ہوتے ہیں۔

إِلَّا بَلَاغًا مِّنَ اللَّهِ وَرِسَالَاتِهِ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا

مگر اللّٰہ کی جانب سے احکامات اور اُس کے پیغامات کو پہنچانا (میری ذمّے داری ہے)، اور جو کوئی اللّٰہ اور اُس کے رسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے تو بے شک ایسوں کے لیے جہنّم کی آگ ہے، وہ ہمیشہ ہمیشہ اُس میں رہیں گے۔(سورۂ الجنّ:۷۲، آیت۲۳)

وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا

اور جو کوئی اللّٰہ اور رسول(ﷺ) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللّٰہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو انبیا، صدّیقین، شہدااور صالحین ہیں، اور یہ بہت اچّھے ساتھی ہیں۔(سورۂ نسا٫:۴، آیت۶۹)

پیغمبرانِ کرام نے خود اپنے قلب کی گہرائیوں میں اللّٰہ کے ادراک کے ذریعے حق کی گواہی دی اور بلند ترین روحانی درجات تک پہنچے اور حقیقتِ ہستی میں فنا ہوکر، اللّٰہ کی وحدانیت کا اقرار کیا۔ عرفان وتصوّف پیغمبرانِ کرام کی تعلیمات کا خاص جوہر ہے۔ یہ پیغمبروں کا راستہ ہے۔ در اصل عرفان و تصوّف سچّے عقیدے کے اعلان کا راستہ ہے۔

Bitte aktualisieren Sie Ihren Flash Player!