غدیرِ خُم کا واقعہ - حصّۂ اوّل

جب حضرت محمدﷺ ۶۳۲ عیسوی مطابق۱۰ہجری میں اپنے آخری حج سے واپس آرہے تھے اور اُن کے ہمراہ لاکھوں مسلمان تھے اور اُنھوں نے کارواں کو ایک مقام غدیرِ خم پر ٹھہرنے کا حکم دیا اور تمام حاجیوں کو اپنے ارد گرد جمع کیا اور قرآنِ پاک کی مندرجۂ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا

آج میں نے تمھارے لیے دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمھارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔
(سورۂ مائدہ:۵، آیت:۳)

پھر جیسا کہ بہت سی احادیث میں بھی بیان ہوا ہے اور دیگر ذرائع سے بھی پتا چلتا ہے کہ پیغمبرِ اکرمﷺ نے حضرت علی (ع) کو اپنے قریب بلایا اور فرمایا:

"میں تم میں دو بہت اہم تحفے چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ایک الله کا کلام قرآنِ پاک اور دوسری میری عترت۔"[i]

پھر حضرت محمدﷺ نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ تھاما اور بلند فرمایا اور یہ اعلان کیا:

"ہر وہ شخص جو مجھے رہنما اور ہادی مانتا ہے، اُس کے لیے علی بھی رہنما اور ہادی ہیں۔ اے میرے رب! تُو علی کے دوستوں کے ساتھ دوستی رکھ اور علی کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی رکھ اور مدد فرما اُس کی جو علی کا مددگار ہو اور خوار کر اُسے جو علی کو خوار کرنا چاہے اور علی کو مسلسل حق سے پیوستہ رکھ، جہاں کہیں بھی وہ ہو۔"[ii]

 

تمام اماموں (روحانی رہنماؤں) کا تعلّق خاندانِ رسالت سے ہے۔ اماموں کو دین کا سِرّی علم عطا ہوتا ہے اور وہ قرآنِ پاک کے سارے رموز سے واقف ہوتے ہیں۔ علمِ ازلی حضرت محمدﷺسے حضرت علی(ع) کو بحیثیتِ "ولی و امامِ اوّل" عطا ہوا تھا۔ پھر اُن کے بعد ائمّۂ اطہار، اولیا اور دیگر عالی قدر عارفین کو عطا ہوا۔

پیغمبرِ اسلامﷺ نے بار بار "کتاب" اور "عترت"کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ یہ دونوں، یعنی قرآنِ پاک اور عترتِ رسول، اسلامی اصولوں کے دو ایسے عناصر ہیں جنھیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ عترت کے معنی سیرتِ خاندانِ پیغمبر ہیں، جس میں ائمّہ، اولیا اور عارفینِ عظام شامل ہیں، جو خدا کے نزدیک برگزیدہ اور علمِ الٰہی کے حامل ہیں۔ یہ معلّمینِ وجود اسلام اور پیغمبرِ اکرمﷺ کی تعلیمات کو اپنے وجود کے مرکز، یعنی طریقِ قلب سے مشاہدہ اور دریافت کرتے ہیں، یعنی اُسی طرح جیسے پیغمبرِ اکرمﷺ نے حقیقت کو دریافت کیا تھا۔ الله کی کتاب کوکسی ایسے عالمِ وجود، یعنی روحانی استاد کی مدد کے بغیر نہیں پڑھا جاسکتا جسے علمِ الہٰی عطا ہوا ہو۔ عالمِ وجود قانونِ وجود کی بنیاد پر ہر انسان کے نفس کی کتاب اُس کے لیے کھولتے ہیں، تاکہ وہ اپنے وجود کی کتاب پڑھ سکے اور اُس میں موجود علم سے آگاہی حاصل کرسکے۔

_____________________________
حوالہ جات:
1. Abol-Gasem Payandeh. (1957). Nahj-ol-Fasahat, The collection of narrations of Hazrat Mohammad, the prophet of Islam. 6th Edition, Tehran, Iran: Javidan Publications. p.107
2. Allamah Sayyid Muhammad Husayn. Shi'ite Islam. Houston, TX: Free Islamic Literatures.

Bitte aktualisieren Sie Ihren Flash Player!