غدیرِ خُم کا واقعہ - دوسرا حصّہ

جب تک کہ 'اصلِ امامت' کی حقّانیت کو اپنے وجود کے اندر تسلیم نہ کر لیا جائے اور خدا کی طرف سے انسانی روح پر ایک معلّمِ روحانی کا الہام نازل نہ کر دیا جائے، شہادت اور یقین کی منزل کا حصول ممکن نہیں۔ سچّے سالک کے لیے روحانی رہنما اور رسول کا انکشاف روح کے ایک انتہائی پوشیدہ گوشے میں ہوتا ہے اور یہ اُس وقت ہوتا ہے جب تمام آلودگیوں اور تصوّراتی حدود کو شعلہٴ عشق سے جلا کر خاکستر کر دیا جائے اور فقط چہرۂ خداوند باقی رہے۔

كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ

جو(مخلوق) زمین پر ہے، سب کو فنا ہونا ہے، اور تمھارے پروردگار ہی کی ذات (بابرکات) جو صاحبِ جلال وعظمت ہے، باقی رہے گی۔ قرآنِ کریم (سورۂ الرّحمٰن:۵۵، آیات۲۶-۲۷)

اسلامی تصوّف کے مطابق یہی نجات، سچّے عقیدے اور حقیقت کا راستہ ہے، کیوں کہ ہدایت اندرون کا معاملہ ہے۔ شہود اور یقین پر مبنی اِس طریقِ معرفت کی نمایاں مثال حضرت اویسِ قرنی ہیں۔ وہ پیغمبرِ اکرم (ص) کے زمانے سے تعلّق رکھتے تھے، مگر کبھی اُن سے براہِ راست ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔ وہ اُن کی تعلیمات اپنی باطنی قوّت کے ذریعے اپنے قلب میں حاصل کرتے رہے۔ قلب سے قلب تک آگاہی کا یہ طریقہ، دراصل وہ روحانی تعلّق ہے جو سچّے سالک اور اُس کے روحانی استاد، یعنی امام اور پیر کے درمیان قائم ہونا چاہیے۔

نبیٔ اکرم حضرت محمّد(ص) نے حضرت اویسِ قرنی کی تعریف میں بارہا ارشادفرمایا ہے: "میں یمن کی جانب سے رحمٰن کی خوش بو محسوس کرتا ہوں۔"اپنی حیاتِ ظاہری کے آخری دنوں میں حضرت رسولِ اکرم(ص) نے اپنا خرقۂ مبارک حضرت علی ابنِ ابی طالب(ع) اور حضرت عمر بن الخطّاب کے سپرد کرکے فرمایا کہ یہ امانت اویس کو دے دینا۔ ہجویری نے"کشف المحجوب" میں، فریدالدّین عطّار نیشاپوری نے"تذکرۃالاولیا" میں اور جلال الدّین شیخ محمّد قادر باقری نمینی نے "اقطابِ اویسی" میں نقل کیا ہے کہ حضرت رسولِ اکرم(ص) سے سب سے پہلے جنھیں خرقے کا اعزاز حاصل ہوا، وہ اویسِ قرنی تھے۔

اِس طرح پیامبر ِاکرم(ص) نے قلب سے قلب تک ابلاغ کے باطنی طریقے کی تائید فرمائی، جس کے ذریعے حضرت اویس نے باطنی طریقے سے اپنے زمانے کے معلّم سے اسلام کا اصل جوہر حاصل کیا تھا۔ حضرت اویس نے جنگِ صفین میں حضرت علی ابنِ ابی طالب(ع) کے ساتھ شرکت فرمائی اور اپنے امام کی ہم رکابی میں جامِ شہادت نوش کیا۔

اُس وقت سے موجودہ دور تک 1400 سال کے عرصے میں یہ خرقہ مکتبِ طریقتِ اویسی، مکتبِ عرفانِ اسلامی®کے چالیس چراغوں، یعنی ہدایت یافتہ اساتذہ کےغیرمنقطع سلسلے سے ہوتے ہوئے حضرت مولانا شاہ مقصود صادق عنقا اور اُن کے بعد حضرت صلاح الدّین علی نادر عنقا کو منتقل ہوا۔

چودہ سَو سال سے زیادہ عرصے سے مکتبِ طریقتِ اویسی کے استاد اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتے آئے ہیں کہ وہ تقلید نہ کریں، بلکہ نورِ حق کا مشاہدہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کی باگ ڈوراپنے ہاتھ میں لے لیں۔

أَوَ مَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُواْ يَعْمَلُون
(Al Anam 6:122)

بھلا جو پہلے مردہ تھا، پھر ہم نے اُس کو زندہ کیا اور اُس کے لیے روشنی کر دی جس کے ذریعے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے، کہیں اُس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھیرے میں پڑا ہوا ہو اور اُس سے نکل ہی نہ سکے۔ اِسی طرح کافر جو عمل کررہے ہیں، وہ عمل اُنھیں اچّھے معلوم ہوتے ہیں۔(سورۂ الانعام:۶، آیت۱۲۲)

_____________________________
حوالہ جات:
Hujwiri , Kashf al-Mahjub. Tehran: Amir Kabir Publications, 1957. Print.
Attar, Sheikh Farid al-din, Tazkeret al- Ulia. Tehran: Amir Kabir Publications, 1964. Print
Bagheri Namini, Sheikh Mohammad Ghader, Aghtab Oveyssi. Teheran: Amin Publications, 1973. Print.

Bitte aktualisieren Sie Ihren Flash Player!