حجاب غفلت

غفلت کا حجاب دراصل ایک تاریک پردے کی مانند انسان کے وجود کو ڈھانپے رکھتا ہے اور اُسے خدا کا تقرّب حاصل کرنے اور اُس کے نزدیک ہونے سے روکتا ہے اور اُس کی باطنی اور ذاتی شناخت کے حصول میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ بہت سی پست صفات و خصوصیات اور منفی اور ناموزوں کردار جیسے خودغرضی، حرص، مادّہ پرستی، تکبّر، خود پرستی، حسد اور عارضی خواہشات کی پیروی اور اسی طرح حواس اور دوسری توانائیوں سے محدود کام لینا، یہ سب ایک وزنی اور تاریک پردہ بن کر انسان کے کنہِ وجود میں موجود حقیقت کو ڈھانپ لیتے ہیں اور دلوں میں انوارِ الٰہی کی تجلّی کے لیے رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انسان اپنی حقیقی "میں" کی شناخت پر قادر نہیں رہتا اور صرف حقیقت کے ایک نامعلوم تصوّر پر اکتفا کرتا ہے۔

ہماری محدود سمجھ اور عقل دراصل ایسا حجاب اور پردہ ہے جو حقیقت کے اوپر ڈال دیا گیا ہے۔ ہم اپنی دینی تعلیمات کو محض سنتے اور دہراتے ہیں اور اگر چہ ہم جانتے ہیں کہ "الفاظ ناقلِ معانی نہیں ہوتے،" مگر الفاظ میں پوشیدہ حقیقت کو دریافت کرنے کے بجاے ہم صرف اپنی خواہشات اور میلانات سے مطابقت رکھنے والے مفہوم سے سروکار رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم عبادت کرتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، لیکن ہم اکثر عبادات کو اُس یکتا معبود کے حقیقی تقرّب اور یاد کی خاطر بجا نہیں لا رہے ہوتے، بلکہ اپنی خواہشوں، ضرورتوں اور کمزوریوں کے وجہ سے عبادت کرتے ہیں۔ ایسے میں ہمارا تصوّر صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم عبادت کر رہے ہیں اور یہ تصوّر خود ایک حجاب ہے، جو خدا سے تقرّب اور وحدت کے حصول میں رکاوٹ بنتا ہے۔ قرآنِ کریم میں وضاحت ہے کہ غافلوں کی آنکھوں، کانوں اور دلوں پر ایک پردہ ہوتا ہے۔ اِسی بنا پرحقیقت کے متلاشی سالک کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ غفلت کے اِس پردے کو تزکیہَ نفس اور عبادت کے ذریعے چاک کرے اور بالآخر اتار پھینکے۔ 1

"خدا نے اُن کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے اور اُن کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔"
(قرآن کریم، سورہَ بقرہ:۲، آیت۷)

پیغمبرِ اکرم حضرت محمّد(ص) نے فرمایا کہ تمھارے اور حق کے درمیان ستّر ہزار نور و ظلمت کے حجاب ہیں۔ ظلمت کے حجاب سے مراد جہالت اور نادانی کے حجاب ہیں، جنھیں انسان اپنی تنگ نظری اور کمزوریوں کے ذریعے بناتا ہے؛ اور نور کے حجاب سے مراد وہ روشن مراتب اور آفاق ہیں جو سیر و سلوک کی منزل میں مومن کے (مطلعِ) دل پر چمک اُٹھتے ہیں تا کہ اس کے راستے کو روشن کریں اور وہ اپنے سفر کو انتہائی مقصد کے حصول تک جاری رکھے۔ یہاں ہر ٹھہراو اور جمود ایک حجاب ہے جو اسے اس کے راستے سے روکے رکھتا ہے۔

"ہم عن قریب اپنی نشانیاں سارے آفاق میں اور خود ان کی ذات میں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ وہ حق ہے۔ کیا یہ کافی نہیں کہ تمھارا پروردگار ہر چیز پر گواہ ہے۔"

(قرآنِ کریم، سورهَ حٰم السّجدۃ:۴۱، آیت۵۳)


_____________________________
حوالہ جات:
1- "Words do not convey the meanings": From Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Dawn (Verdugo City Ca: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications®, 1991).

Bitte aktualisieren Sie Ihren Flash Player!