حجاب بعنوانِ خواتین کا لباس

حجاب کی تاریخ

معاشروں میں حجاب کے معنی میں سب سے زیادہ مروّج معنی وہ نقاب ہے جو خواتین پہنتی ہیں۔

مقدّس صحیفوں میں حجاب کے بارے میں موجود احکام کے تعلّق سے محققین اِس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اسلام میں حجاب خواتین کے لباس کے معنوں میں جبر کی صورت میں نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ حجاب وحی قرآن کے نزول سے قبل کے زمانے سے رائج تھا۔ سر کا ڈھانپنا ظہورِ اسلام سے بہت پہلے عربوں کے دوسرے ممالک سے رابطوں اور میل جول کی وجہ سے عرب معاشرے میں رائج ہو چکا تھا۔ اُس وقت حجاب خاص طبقے کی خواتین کے لیے مخصوص تھا، جو اُن کے اعلٰی سماجی مرتبے کی علامت تھا۔

لیلٰی احمد اپنی کتاب بعنوان 'اسلام میں عورت اور صنف: ایک جدید بحث کا تاریخی پس منظر" میں لکھتی ہیں کہ ساسانیوں کے دور میں اسی طرح حجاب پہنا جاتا تھا اور عورتوں کو معاشرتی امور سے الگ رکھنے کی رسم، مشرقِ وسطٰی کے عیسائیوں اور بحیرہَ روم کے ساحلی علاقوں کے لوگوں میں ظہورِ اسلام سے قبل بڑی سختی سے رائج تھی۔ حضورِ اکرم (ص) کے زمانے میں، اور وہ بھی صرف آپ کی زندگی کے آخری دور میں، صرف آپ کی ازواجِ مطہّرات حجاب کرنے کی پابند تھیں۔ 1

وہ اس کے بعد لکھتی ہیں:

"یقیناً حجاب حضرت محمّد(ص) کے ذریعے عرب معاشرے میں متعارف نہیں ہوا، بلکہ یہ معاشرے کے چند خاص طبقوں میں پہلے سے رائج ایک رسم تھی، جس کا تعلّق معاشرتی مقام و منزلت سے تھا۔ یونانیوں، رومیوں، یہودیوں اور آسوریوں میں مختلف طریقے سے حجاب رائج تھا۔ قرآنِ کریم میں صراحت کے ساتھ حجاب تجویز نہیں کیا گیا ہے اور خواتین کے لباس کے بارے میں آیات محدود ہیں اور عورتوں کو ستر اور سینہ چھپانے کا حکم دیتی ہیں۔ (سورہَ نور:۲۴، آیات ۳۱/ اور ۳۲)۔
حضورِ اکرم (ص) کی زندگی میں صرف آپ کی ازواجِ مطہّرات حجاب کرتی تھیں اور یہ حدیث کہ: "اس نے حجاب کیا" اصطلاحٓا اِن معنوں میں تھی کہ وہ خاتون حضور کی زوجیت میں آ گئیں۔ لہٰذا ہمیں یہ معلوم نہیں کہ پھر حجاب کس طرح معاشرے میں رائج ہو گیا۔ زیادہ احتمال یہ ہے کہ اِس کی اصل وجہ وہ اثرات ہیں جو اُس وقت عرب معاشرے پر پڑے تھے، جب مسلمانوں نے وہ علاقے فتح کیے جہاں اُمرا کے طبقے کی خواتین اپنی دولت مندی اور اعلٰی سماجی رُتبے کے اظہار کے طور پر حجاب کرتی تھیں۔ اِس کے علاوہ حضورِ اکرم (ص) کی ازواج کو عملی نمونہ قرار دینے کی وجہ سے بھی حجاب کا رواج عام ہوا۔" 2

آج کل حجاب کے لیے 'چادر' کا لفظ استعمال ہو رہا ہے۔ اس کی بنیاد بھی قبلِ اسلام کی طرف لوٹتی ہے کہ اشرافی دولت مند خواتین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ محمل میں لے جایا جاتا تھا، جس کے اردگرد چادر لگائی جاتی تھی۔ 3

جان اسپوزیتو، جو جارج ٹاؤن کی یونیورسٹی میں تحقیقاتِ اسلامی کے پروفیسر ہیں، لکھتے ہیں کہ حجاب پہننے کی رسم دراصل ایران اور مشرقی روم کو فتح کرنے کے بعد رائج ہوئی اور اس کے بعد اُسے قرآن کی اسلامی اقدار کے عنوان سے یاد کیا جانے لگا۔ قرآنِ کریم میں عورتوں کو الگ رکھنے کی کوئی صراحت موجود نہیں، بلکہ اس کے برعکس اسلام خواتین اور مردوں، دونوں کو معاشرے میں دینی امور میں شرکت کی تاکید کرتا ہے۔ 4

شیخ محمد غزالی نے اپنی کتاب بعنوان "فقہ و حدیث میں سنّت" میں تمام ایسی رسوم کو، جو پسماندگی اور جہالت کا سبب بنتی ہیں اور عورتوں کو معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے سے روکتی ہیں، دراصل جاہلیت کے زمانے کے افکار اور اعمال کہا ہے۔ ایسی روشیں روح اسلام کے برخلاف ہیں۔ غزالی مزید کہتے ہیں کہ پیغمبرِ اسلام کے زمانے میں خواتین مساوی درجہ رکھتی تھیں اور گھر میں اور میدانِ جنگ میں شرکت کرتی تھیں، مگر آج حقیقی اسلام، 'اسلام' کے نام پر نابود ہوچکا ہے۔ 5

شیخ غلائینی اپنی کتاب "اسلام: روحِ تمدّن" میں یاد دلاتے ہیں کہ حجاب قبلِ اسلام کے زمانے کی رسم ہے اور مسلمانوں نے دوسری اقوام سے اپنے میل جول بڑھنے کی وجہ سے اس رسم کو اپنا کر رائج کیا ہے۔ 6

نذیرہ زین الدّین نے بھی اس نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے کہ حجاب صرف امیر خاندانوں میں رائج ایک رسم تھی جو ان کی معاشرتی حیثیت اور مقام و مرتبے کو ظاہر کرتی تھی۔ اسی طرح وہ شیخ عبدالقادر سے یہ قول نقل کرتی ہیں کہ وہ بھی حجاب کو معزّز اور خوش حال خاندانوں میں رائج ایک رسم کہتے ہیں جو انھیں دوسرے خاندانوں سے ممتاز کرتی تھی۔ نذیرہ زین الدّین نے اِس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آج کل حجاب جس انداز سے رائج ہے، یہ شریعتِ اسلامی کے مطابق نہیں۔ 7

ایک اَور مسلمان محقق، عبدالحلیم ابوشیق نے اسلام میں عورت کے موضوع کے بارے میں اپنی کتاب بعنوان "پیامبرِ اکرم(ص) کے زمانے میں عورتوں کی آزادی" میں ایک جامع تحقیق پیش کی ہے اور وہ نذیرہ زین الدّین اور غزالی کے ہم خیال ہیں کہ حضرت محمّد(ص) کے زمانے میں عورتیں اپنے مرتبے اور منزلت کے اعتبار سے آج کی عورتوں سے بہتر حالت میں تھیں۔ 8

آج ایک صدی سے زیادہ عرصے سے حجاب کے پہننے اور نہ پہننے کا موضوع اسلامی معاشروں میں اختلافی مسئلہ بنا ہوا ہے۔

مراکشی ماہرِ سماجیات فاطمہ مرنیسی نے اپنی کتاب "مرد اشرافیہ اور حجاب" میں اسلامی خواتین کے حقوق کی طرف داری کرتے ہوئے قدامت پرست معاشروں میں صنفی امتیاز کی بنیاد پر مردوں عورتوں کی علیحدگی کو مذہبی اداروں کی حاکمیت کا نتیجہ قرار دیا ہے اور اُس پر سخت تنقید کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ مقدّس کتابوں کے متن میں تحریف کر کے اور انھیں خاص انداز سے ترتیب دے کر اپنی پسند کے معنی پہنائے گئے ہیں۔ اِسے وہ اسلامی معاشرے میں خواتین کے حقوق کے خلاف طاقت کا استعمال قرار دیتی ہیں۔ 9


_____________________________
حوالہ جات:

1- Ahmed, Leyla, Women and Gender in Islam: Historical Roots of a Modern Debate , (New Haven: Yale University Press, 1992), p.5
2- Ibid., p. 56
3- Aslan, Reza, No god but God, (Random House Inc. New York , NY , 2005) p.65
4- John Esposito, Islam: The Straight Path,(Oxford University Press, 3rd Edition, 2005) p.98
5- Shaykh Muhammad al-Ghazali.: Sunna Between Fiqh and Hadith (Cairo: Dar al-Shuruq, 1989, 7th edition, 1990)
6- Shaykh Mustafa al-Ghalayini, Islam ruh al-madaniyya(Islam: The Spirit of Civilization) ( Beirut : al-Maktabah al-Asriyya ) 1960) P.253
7- Nazira Zin al-Din, al-Sufur Wa'l-hijab (Beirut: Quzma Publications, 1928) pp.255-56
8- Abd al-Halim Abu Shiqa, Tahrir al-mara' fi 'asr al-risalah (Kuwait: Dar al-Qalam, 1990)
9- Fatima Mernissi, The Veil and the Male Elite : A Feminist Interpretation of Women's Rights in Islam. translated by Mary Jo Lakeland (Addison-Wesley, 1991)

Bitte aktualisieren Sie Ihren Flash Player!