نماز کے معنوی ارکان


نماز کے معنوی ارکان

- دانش (تفقّہ) اور آگاہی (تفہّم)
- تعظیم
- ہیبت اور خشیّت
- امید (رجا)
- خشوع


تفقّہ (دانش) اور تفہّم (آٓگاہی)

نماز میں تفقّہ اور تفہّم سے مراد یہ ہے کہ ہم جو کچھ اذکار، تسبیحات اور دعائیں نماز میں پڑھتے ہیں، ان کے بارے میں کامل معرفت رکھیں اور معنوی طور پر علم رکھتے ہوئے اور ہر لفظ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس کے لطیف اور حقیقی معنوں کو سمجھے اور اس کو اپنا واقعی ارادہ قرار دے۔

جیسا کہ حضرت امام رضا علیہ السّلام فرماتے ہیں: "نماز ایک کلّی توجّہ ہے اُس کی طرف جو سارے کا سارا اُس سے مخصوص ہے۔" اور "نماز غیرِ خدا سے منہ موڑ کر خدا کی رضا کی طرف متوجّہ ہونا ہے۔"

حضورِ اَکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ارشاد کے مطابق علم کی تعریف یوں ہے: لَيسَ العِلمِ بِکَثرَه التَّعَلُّمِ بَل هُوَ نُورٌ يَقذَفَهُ اللهُ فی قَلبِ مَن يَشاءُ۔
"علم کثرتِ تعلّم کا نام نہیں، بلکہ علم ایک نور ہے، جسے خدا جس کے دل میں چاہے، ڈال دیتا ہے۔"


تعظیم

نماز میں تعظیم معرفت کا نتیجہ ہے جو ایک ایسی حالت ہے کہ ایک بندہ کمالِ ِ بندگی کے ساتھ حق کے حضور میں اُس کی جلالت و عظمت کو اپنے وجود کا احاطہ کیے ہوئے دیکھتا ہے۔

قرآن مجید میں یوں آیا ہے: فَآمِنُوا بِاللهِ وَ رَسُولِهِ وَ النُّورِ الَّذی اَنزَلنا وَاللهُ بِماتَعمَلونَ خَبيـرٌ
"پس تم لوگ اللہ اور اُس کے رسول پر اور اُس نور پر ایمان لاؤ جسے ہم نے نازل کیا ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالٰی اُس سے باخبر ہے۔"
(سورۂ تغابن:۶۴، آیت۸)


ہیبت اور خشیّت:

نماز میں نمازی کی ہیبت اور خشیّت وجودِ مطلق ِحق کا ادراک اور اُس کے مقابل اپنے نہ ہونے کا مشاہدہ کرنا ہے۔

خداوند ارشاد فرماتا ہے: اِنَّما يَخشَی اللهَ مِن عِبادِهِ العُلَمؤآ.
"خدا سے تواُس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحبِ علم ہیں۔" ( قرآنِ مجید، سورۂ فاطر:۳۵، آیت۲۸)

یعنی صرف عالِم ہی ہے جو حق کے سامنے جھکتا ہے، لہذا عوام النّاس اور جاہل کی عبادت، جو علم و معرفت سے خالی ہو، معنوی مفہوم اور قدر و قیمت سے خالی ہوتی ہے، اور کافر کی عبادت، بلکہ ایسے لوگوں کی عبادت، جو خدا کی معرفت نہیں رکھتے، صحیح نہ ہونے کی توجیہہ یہی ہے، چاہے بظاہر وہ اسلام اور ایمان کا دعویٰ ہی کیوں نہ کریں۔

یہ بات مشہور ہے کہ اکثر ائمّۀ اطہار حضرات علیہ السّلام کے چہرے کا رنگ وضو اور نماز کے لیے قیام کے وقت زرد پڑ جاتا تھا اور جب اُن حضرات سے پوچھا گیا تو انھوں نے جواب میں فرمایا: اگر ہر شخص کو یہ معلوم ہو کہ وہ کس کے سامنے عبادت کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اُس کی بھی حالت ایسی ہی ہوجائے گی۔ خشوع و خضوع کا یہ کمال اُن کے علم اور معرفت کے بقدر ہوتا ہے۔

کچھ لوگ ایسے ہیں جنھوں نے وجودِ مطلق، یعنی خداوند کی معرفت حاصل کی ہے، اوراُنھیں اِس بات کا خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ عشق ِالٰہی اُن کے ہاتھ سے نکل نہ جائے۔


رجا (امید):

"امید" پروردگار کے لطف و کرم کی معرفت رکھتے ہوئے اُس کے فضل و کرم، رحمت اور احسان کی وسعت کا یقین رکھنا اور خداوند کی عنایات اور عطیّات کا دلی یقین رکھنا ہے۔

حضرت امیرالمومنین علی ابن ِابی طالب(ع) فرماتے ہیں: "رجا" خداوند کے لطف و کرم سے دل کی نزدیکی اور اُس کے حسنِ وعدہ پر دل کا مسرور رہنا ہے۔


خشوع:

ذوالنّون مصری کہتے ہیں کہ: عارف ہر نئے دن پہلے کی نسبت زیادہ انکسار کرتا ہے اور ہر لمحے اور ہر گھڑی اپنے محبوب سے قریب تر ہوجاتا ہے۔ جو بھی شخص دل کی طرف متوجّہ اور متمرکز ہوتا ہے، وہ ظاہر سے غافل ہو جاتا ہے، اور اُس کی دماغی قوّتیں اور حواس نماز میں اضافی امور کی بجا آوری میں نہیں پڑتے، کیوں کہ عبادتِ حق میں ہر اضافی عمل لغو ہے اور ظاہری و باطنی ادب سے دور ہوتا ہے۔


_____________________________
حوالہ جات:
- Sadegh ANGHA, Hazrat Shah Maghsoud, Al-Salat, the reality of Prayer in Islam, M.T.O. Shahmaghsoudi Publication®, Riverside, CA, USA, 1998, pp 5-8.

Bitte aktualisieren Sie Ihren Flash Player!