نماز کے ظاہری ارکان اور باطنی حقیقت

"سجدہ و رکوع اور خضوع و خشوع سے خداوندِ سبحان کی عظمت کا تقرّب حاصل کرو۔"
(امیرالمومنین علی علیہ السّلام)

لغت میں 'نماز' کے معنی دعا کے ہیں، جو خدا کے تقرّب کے حصول میں قائم کی جاتی ہے۔ ظاہری نماز کی چند حالتیں اور ارکان ہیں جو اہلِ اسلام کی کتابوں میں لکھی ہوئی اور اُن کو معلوم اور اُن کا معمول ہیں۔ نماز کے باطن کے کچھ اَسرار ہیں جو اکثر معروف علماے راسخین اور بلند مرتبہ عارفوں کی کتابوں میں مذکور ہیں۔

حضرت مولانا شاہ مقصود صادق عنقا رسالہ "الصلٰوۃ" میں تعلیم فرماتے ہیں کہ کس طرح نماز اپنے ظاہری ارکان اور باطنی پہلوؤں کی ایک حقیقی اکائی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نمازگزار کو قربِ الٰہی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور اُس کے نفسِ امّارہ کو اُس کے نفسِ قدسی کی طرف معراج پر پہنچاتی ہے۔ ظاہری ارکان اور باطنی حقائق نمازگزار کو حقیقی عبادت، انوارِ الٰہی کے شہود اور عظمتِ خداوندِ جلّ و جلالہ کی شہادت تک پہنچاتے ہیں۔

نمازگزار کی عملی تہلیل اور اُس کے اعضا کی حرکات کے اَسرار بڑے اہم مسائل میں سے ہیں، جو اسلام میں عملِ نماز سے مخصوص ہیں۔ یہ اِس بات کی دلیل ہیں کہ نماز واجبیہ کے اعمال کی تشریح انسانی افکار سے باہر ہے اور یقینی طور پر یہ وارداتِ وحی میں سے ہیں جو صرف پیغمبرِ اسلام حضرت محمّد مصطفٰے(ص) کے قلبِ مطہّر سے مخصوص ہے اور یہ ایک الٰہی عطیہ ہے جو انسان کے سیرِ وجودی کی ہدایت اور کاملیت کے لیے ہے۔

نماز میں تکبیر، تہلیل اور صلاۃکے ذریعے مومن کا قلب، زبان اور اُس کے اعضا ایک ہی حقیقت کے قاصد ہیں اور وہ کلمۂ طیّبہ کا ذکر "لا اِلٰہ اِلّااللہ" ہے کہ حضورِ اکرم(ص) نے فرمایا: "قولوا لا اِلٰہ اِلّا اللہ تفلحوا۔"

قولوا' کا لفظ جمع ہے، اور اِن معنوں میں کہ اپنی تمام ہمّت کے ساتھ، یعنی زمانے کے عوارض و ہوس سے قلب کو پاک کر کے، تمام قوّتوں کے ساتھ، خواہ وہ باطنی احوال ہوں یا زبانی اقوال یا اعضا کے افعال، کہہ دو: "لا الٰہ الا اللہ" تاکہ تم فلاح پاؤ۔


_____________________________
حوالہ جات:
Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Al-Salât, the Reality of Prayer in Islam, Riverside, CA, USA, M.T.O. Shahmaghsoudi Publications® , 1998, pp. 78-79

Bitte aktualisieren Sie Ihren Flash Player!