عبادت میں معنوی ارکان

حضورِ قلب

نماز کی لازمی شرط حضورِ قلب ہے جیسا کہ حضرت محمّد(ص) نے فرمایا ہے:

لا صَلوهَ اِلّا بِحُضُورِ القَلبِ
"حضورِ قلب کے بغیر نماز نہیں ہوسکتی۔"

حضورِ قلب سے مراد ہے اپنی تمام باطنی، عقلی اور روحانی قوّتوں کے ساتھ اپنے قلب پر اپنی توجّہ مرکوز رکھنا، اور کسی اور فکر یا خیال کو، خواہ وہ اچھا ہو یا برا، ہرگز دل میں نہ لانا تاکہ اللّہ کی یاد پوری طرح قلب سے منسلک ہو جائے، اور صرف اسی کی طلب دل میں رہے۔ اس معنی کو سیر و سلوک میں 'افکار کی نفی' کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ 1

حضرت شاہ مقصود صادق عنقا پیرِ طریقتِ اویسی "کتاب الصّلٰوۃ" میں یوں فرماتے ہیں: اے عزیز! صحیح باطنی غور و فکر کے ساتھ، عبادت کی ادائیگی میں تمام ہمّت صَرف کرتے ہوئے تمام حالات میں موت کو یاد کرتے ہوئے دائمی ذکر کی قوّت کے ذریعے اپنے کعبۀ دل کو غیر اللہ کے نقوش سے پاک کر، اُسے امانت الٰہی کے قبول کرنے پر آمادہ کر، اور دل کے آئینے کو صاف رکھنے کی کوشش کر، تاکہ وہ تجلّیاتِ حق کے ظہور کا محل قرار پائے۔ 2

حضرت محمّد(ص) فرماتے ہیں:

لا يَسَعُنی اَرضی وَ لا سَمائی بَل يَسَعُنی قَلبُ عَبدِیَ الْمُؤْمِنِ
"میں زمین و آسمان میں نہیں سماتا؛
بلکہ میری سمائی میرے مومن بندے کے دل میں ہے۔"

اِسی طرح خداوند نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:

لا يُؤاخِذُکُمُ اللهُ بِاللَّغْوِ فی اَيْمانِکُمْ وَ لکن يُؤاخِذُکُمُ بِماکَسَبَت قُلُوبُکُم وَاللهُ غَفُورٌ حَليمٌ
"خدا تمھاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا، لیکن جو قسمیں تم قصدِ دلی سے کھاؤ گے اُن پر مواخذہ کرے گا، اور خدا بخشنے والا بُردبار ہے۔"
( قرآنِ مجید، سورۂ بقرہ:۲، آیت۲۲۵)


_____________________________
حوالہ جات:
1. Sadegh ANGHA, Hazrat Shah Maghsoud, Al-Salat, the reality of Prayer in Islam, M.T.O. Shahmaghsoudi Publication®, Riverside, CA, USA, 1998, p 4.
2. Ibid, p 9.

Bitte aktualisieren Sie Ihren Flash Player!