تہلیلِ عملی اور نمازی کے اعضا و جوارح کی حرکات کے اسرار

مولانا المعظّم حضرت شاہ مقصود صادق عنقا اپنے رسالے الصّلٰوۃ میں تہلیلِ عملی اور نمازی کے اعضا و جوارح کی حرکات کو مندرجۂ ذیل وضاحت سے بیان کرتے ہیں: "تہلیلِ عملی اور نمازی کے اعضا و جوارح کی حرکتوں کے اسرار اُن اہم مسائل میں سے ہیں جو اسلام میں نماز سے مخصوص ہیں۔ خاص طور پر نماز میں واجب اعمال کی تشریح انسانی وہم و گماں سے خارج ہے، یہ یقینی طور پر وحی کے ذریعے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفٰی(ص) کے قلبِ مطہّر پر اترے ہیں اور یہ ایک الٰہی عطیہ ہے تاکہ عالمِ بشریت اپنے وجودی سفر میں ہدایت و کمال تک پہنچ سکے۔1

اسلامی صلٰوۃ میں نمازی تزکیہ و تنزیہہِ نفس، اپنی نفی اور حقیقی توحید کے سلسلے میں نماز کے مقدّمات تک میں بھی کوئی غفلت نہیں برتتا۔

نماز میں مومن کا دل، زبان، اور اُس کے اعضا و جوارح تکبیر و تہلیل اور صلٰوۃ سے ایک ہی حقیقت کا قصد رکھتے ہیں اور وہ ذکرِ کلمۂ طیّبہ لا الٰہ الا اللہ ہے کہ فرمایا گیا ہے: "قُولُوا لا اِلهَ اِلاَّ الله تُفلِحُوا۔"

"قُولُوا" جمع کا صیغہ ہے اور اِن معنوں میں ہےکہ تمام ہمّتوں کو یک جا کرکے زمانے کے غلبوں، ہوٰی و ہوس اور احوالِ باطنی، اقوال زبانی و افعالِ جوارح سمیت تمام قوّتوں سے قلب کو آزاد کر کے "لا الٰہ الا اللہ" کہو، تاکہ تم نجات حاصل کرسکو۔

نیّت اور تکبیرۃ الاحرام کے بعد اعضا کی حرکات میں واجب اعمال پانچ ہیں: قیام، رکوع، قیام متّصل برکوع، سجود اور تشہّد۔

نماز کے اِن آداب کا تفریح، ذوق یا عادت سے کوئی واسطہ نہیں کہ اِن کی سادہ لفظوں میں توجیہ کی جا سکے، بلکہ یہ عرشِ اعلٰی سے نازل شدہ حقائق پر مبنی اور نماز میں نمازی کی سچّائی اور خلوص کی تائید کرنے والے اعمال ہیں۔

حجابِ حاجز کے پردے کی وجہ سے انسانی بدن کی عمارت دو حصّوں میں منقسم ہے:

پہلا۔ وہ حصّہ، جو زمین کی طرف ہے اور تمام طبعی اعمال کا عامل ہے اور حروف "لا الٰہ الا" اِسی سے مستفید ہوتے ہیں۔

دوسرا۔ قلب، سینے، ہاتھ اور گردن پر مشتمل اوپر کا حصّہ آسمان کی طرف ہے اور تکبیرۃ الاحرام کے عمل سے مربوط شکل للہ کو مجسّم کرتا ہے اور یہ کہ قیام میں پاؤں کی ایڑیاں ایک دوسرے سے الگ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حق کا قیام ظاہر اور باطن، دونوں حیثیتوں سے ہے، کیوں کہ وہی اوّل و آخر و ظاہر و باطن ہے، اور نمازی کے دونوں قدموں میں سے ایک ملک اور دوسرا ملکوت پر ہوتا ہے، کیوں کہ موجودات وجود کے مظاہر ہیں اور کثرات نمودی ہستیٔ حقیقی اور وجودِ مطلق کے عکّاس ہیں، اور "لا الہ" کے معنی یہی ہیں۔


قیام

نماز میں جوارح و اعضا کا پہلا عمل نمازی کا قیام ہے، جو اُس کے اہلِ توحید ہونے کی علامت ہے اور وہ تحریری "ا" کی صورت میں ہے، جس کی حقیقت توحیدِ محض ہے اور اُس کی گواہی وجود میں حضرتِ حق تعالٰی کی ولایت ہے۔

قیام

رکوع و سجود

حضرت مولا علی علیہ السّلام نے فرمایا: تقرّب الی اللہ سبحانہ بالسّجود والرّکوع والخضوع لعظمۃ والخشوع۔ "سجدے، رکوع اور خضوع و خشوع کے ساتھ اللہ سبحانہ کی عظمت کا تقرّب حاصل کرو۔"

رکوع

رکوع' تعظیمِ حق کا نام ہے۔ اِس میں نمازی کی حالت کامل خشیّت میں ہوتی ہے اور اُس کی شکل "لا" ہے جو نمازی کے نفیِ مطلق کی علامت ہے، جسے وہ ذات واجب الوجود کے حضور پیش کرتا ہے۔

رکوع

قیام بعد از رکوع

رکوع کے بعد قیام کی شکل تحریری الف کی مانند ہے، جو سجود سے پہلے ہے۔

قیام بعد از رکوع

سجود

سجود' سے مراد عارف کا کُلّی طور پر فنا ہونا ہے کہ اُس نے خاکی اجزا کو خاک کے حوالے کرکے حق سے کُلّی اتّصال پا لیا ہے۔

سجود

روایت ہے کہ معتصم نے حضرت ابوجعفر محمّد بن علی ابن موسٰی (ع) سے جاے سجدہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا، وہی ساتوں اعضا ہیں جن کے ساتھ سجدہ کیا جاتا ہے، اور سعید بن جبیر، زجاج اور فرأ نے بھی اِس کی تائید کی ہے۔

حضورِ اکرم(ص) کا فرمان ہے: "اُمِرتُ اَن اَسجُدَ عَلیٰ سَبعَةِ آدابٍ ۔" [مجھے حکم ملا ہے کہ سات آداب سے سجدہ کروں۔] سیرِ دل کے بھی سات اطوار ہیں اور اہلِ باطن کا اشارہ اِسی طرف ہے اور یہ جو فرمایا ہے: "مجھے حکم ملا ہے کہ سات آداب سے سجدہ کروں،" یہ قلب کے سات اطوار کی سیر اور ملکوت و جبروت سے گزر کر مقامِ حضرتِ لاہوت تک پہنچنا ہے، اور "فَلا تَدعُوا مَعَ اللّهِ اَحداًً" کا مطلب بھی یہی ہے کہ اپنے سجدوں میں اُس کے ساتھ کسی اَور کو شریک قرار نہ دیں۔2

اور یہ مقام اربابِ تمکیں کا ہے کہ اِس حالت میں رسم، اسم، عبارت و اشارت بندے میں نہیں رہ جاتی کہ وہ ذاتِ جاوید کے شایان بنے اور نہ ہونے کو فانی کر دے، اور یہ مقام صرف اُس کو حاصل ہے جو حق سے سنے اور حق سے دیکھے۔

اپنی پاکیزہ جان کو کمالِ قرب حاصل کرنے کی خاطر حق کے حضور سجود میں گرا کے   جو اعضا و جوارح کی سجدے کی حالت کی شکل ہے اور رکوع کے بعد قیام کے ساتھ پڑھا جائے گا۔  

تشہّد

بذاتِ خود تشہّد کی شکل "لہ" کی تحریری صورت ہے۔ یہ خدا کی خاص حمد اور عینِ معرفت و بینائی کے ساتھ اُس کی یکتائی اور رسول کی رسالت کی گواہی، اور حقیقی شہادتِ علم و ایمان پر موقوف عینِ خلوص اور توحید کے ساتھ جملہ مومنین اور خود پر سلام بھیجنا ہے۔

تشہّد

پس نماز میں مختلف شکلوں میں تمام اعضا و جوارح کی مجموعی ظاہری شکل "لا الٰہ الا اللہ" ہے۔

نماز میں نمازی کے اعضا و جوارح کی پانچ حالتیں

#29

حقیقی صلٰوۃ کی ادائیگی میں نمازی کے اعضا و جوارح کا عمل دلی نیّت اور زبانی اذکار کے ساتھ منطبق ہو کر کامل حق کی سچّائی اور توحید کی مثال بن جاتا ہے۔

تکبیر کی حالت میں سر اور ہاتھ "ھ" اور ساتھ ہی "للہ" ہیں، جو تحریری الف سے قیام کی حالت میں متّصل ہے اور سب کے ملاپ سے مجموعی طور پر "اللہ" بن جاتا ہے۔"ھ" ابجد کے حساب سے پانچ اور الف کے ساتھ مل کر "ھا" اور مجموعی طور پر چھہ کا عدد بن جاتا ہے۔ اِسی طرح لفظ "ھو" کے واو میں صرف 'و' چھہ دنوں میں خلقتِ عالم کے ایّام کی طرف اشارہ ہے۔ چوں کہ "ھ" کی شکل رکوع پر ختم ہوتی ہے اور رکوع خود "و" کی تحریری شکل ہے۔ یوں مجموعی طور پر "ھو" ہوجاتا ہے، اور رکوع کے بعد قیام کے تحریری الف کو سجود سے، جس کی شکل "للہ" کی ہے، متّصل کرنے سے مجموعی طور پر ایک رکعت میں "ھواللہ" مجسّم ہوجاتا ہے۔

#29


_____________________________
حوالہ جات:
1.  Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Al-Salat, The Reality of Prayer in Islam (Riverside, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications®. pp. 78-85
2. Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Al-Salat, The Reality of Prayer in Islam (Riverside, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications®. pp.27-28

Bitte aktualisieren Sie Ihren Flash Player!